شیخ المشائخ حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری مجیبی علیہ الرحمہ اور سماع بالمزامیر
ترتیب: آفتاب رشک مصباحی، داراپٹی، مظفرپور، بہار
شیخ المشائخ حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا شاہ محمد حنیف تیغی رحمہ اللہ اپنی کتاب " انتباہ الطالبین" میں علامہ عبد الغنی نابلسی کی کتاب سے نقل کرتے ہیں :
" سماع ،محققین کے نزدیک لفظ عام ہے جس کو غنا کہتے ہیں، خواہ زہد کے مضامین یا نغمہ کے ساتھ ہو یا بغیر نغمہ کے، یا ساز یا بے ساز کے ہو کوئی فرق نہیں، دف ہو یا مزامیر سب برابر ہے، مجمع ہو یا بے مجمع کے اور سمع(سماع) جب بولا جاتا ہے تو یہی معنی ہوتے ہیں ، سب کا حکم ، شرع میں ایک ہے"۔ (ص: 91)
اسی میں چند سطر کے بعد لکھتے ہیں:
"رد المحتار میں ہے کہ آلات لہو و بالذات حرام نہیں ہے، بلکہ قصد لہو سے خواہ سننے والے ، خواہ بجانے والے کے ہو، حرام ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے قول اسلم اس بارہ میں ہے کہ کُل کے کُل آلات سماع حرام نہیں ہیں اور کُل کے کُل باجے حلال نہیں ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے؟ کہ یہ آلات بالذات کبھی حلال ہو جاتے ہیں اور کبھی حرام، نیت کے اختلاف کی وجہ سے۔ اس میں دلیل ہے ہمارے پیشوایان طریقت صوفیائے کرام کے لیے کیوں کہ ان کا قصد سننے میں خدا کے عشق و محبت کا ہوتا ہے ، پس معترضین کو جرات نہیں ہونی چاہیے کہ اس کا انکار کریں اور ان کی برکت سے محروم رہیں ، اس لیے کہ وہ ہمارے سردار ہیں ، ان کی وجہ سے ہم پر اچھی دعائیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں"۔ (ص: 91/92)
اسی میں ہے:
"ملا علی قاری کے قول سے ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا سماع سننا ثابت ہے اور تینوں اماموں نے بھی سنا ہے"۔ (ص: 92)
مزید لکھتے ہیں:
" بعض اکابر طبقہ اولیا نے سماع سنا ہے، جیسے: حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری و حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی و حضرت عبد القدوس گنگوہی وغیرہ اور رقص و وجد بھی کیا ہے"۔ (ص: 92)
چند سطر کے بعد لکھتے ہیں:
" ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ صوفیوں کے لیے سماع ، ایسا ہی ہے جیسا کہ زمزم کا پانی، پینے والوں کے لیے ہے اور اس میں فوائد کثیر ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
جائیکہ زاہداں بہ ہزار اربعین رسند مست شراب عشق بیک آہ می رسند" (ص: 93)
حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ کو جن دو مرکزی سلسلوں : سلسلہ آبادانیہ فریدیہ اور سلسلہ قادریہ مجیبیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی ، ان دونوں سلسلوں کے مشائخ سماع بالمزامیر کے نہ صرف جواز کے قائل رہے ہیں ، بلکہ اپنی خانقاہوں میں اس کا اہتمام بھی کرتے رہے ہیں۔ سلسلہ آبادانیہ فریدیہ میں سماع کی ابتدا، یوں تو حضرت شاہ آبادانی سے ہی ہو جاتی ہے کہ آپ حضور فخر جہاں خواجہ فخر الدین دہلوی قدس سرہ کے یہاں سماع میں شریک ہوتے رہے ۔ لیکن ، باضابطہ انعقاد کا سلسلہ حضرت حافظ شاہ احسان علی پاک پٹنی رحمہ اللہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ صاحب انوار قادری لکھتے ہیں:
"آپ (حضرت شاہ آبادانی) کے بعد آپ کے خلیفہ و مجاز حضرت حافظ شاہ احسان علی صاحب پاک پٹنی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں ان صوفیائے متقدمین کے اصول پر جو اہل سماع گزرے ہیں ، مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ اپنے یہاں محفل سماع منعقد کرتے تھے ۔ چنانچہ اسی وقت سے بزرگان سلسلہ آبادانیہ میں سماع ( سماع کی تعریف اور اس کا حکم اوپر گزراہے اسے ذہن میں رکھیں ) کا آغاز ہوا ، جو اب تک رائج اور معمول ہے"۔ (ص:62)
راقم کو ایک مرتبہ حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ کے پیر خلافت حضرت شاہ مولیٰ علی لال گنجوی کے عرس میں شرکت کا موقع ملا ، وہاں بھی سماع بالمزامیر ( ہارمونیم، ڈھولک، طبلہ / دف کے ساتھ قوالی) ہوتے دیکھا ۔ اسی طرح سلسلہ فریدیہ کی ایک شاخ خانقاہ فریدیہ محمودیہ جو گیا شریف، ضلع کھگڑیا ، بہار میں اپنے دوست مولانا صفت الرحمن علیمی فریدی زید مجدہ کی دعوت پر حاضری کا شرف ملا ، وہاں بھی سماع بالمزامیر کا انعقاد ہوتا ہے، اور خود حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری کے پیر بیعت حضرت مولانا سمیع احمد مونگیری رحمہ اللہ کے یہاں بھی سماع بالمزامیر کا انعقاد ہوتے آ رہا ہے۔
بانی خانقاہ مجیبیہ تاج العارفین حضرت مولانا شاہ مجیب اللہ قادری قدس سرہ کو خواجگان چشت خواجہ معین الدین چشتی اور خواجہ نطام الدین اولیا نے منامی طور پر سماع منعقد کرنے کا حکم دیا ، جس کی تائید و ترغیب بارگاہ رسالت پناہی سے بھی بطور بشارت ملی ، اسی کے بعد سے آپ نے سماع ( یہاں کی محفل میں صرف ڈھولک اور ستار ہوتا ہے) منعقد کرنا شروع کر دیا ، جو آج تک منعقد ہوتا آ رہا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے ( سیرت پیر مجیب، ص: 285 تا 288)
راقم کو یہاں بھی ایک بار اپنے خواجہ تاش مولانا ڈاکٹر مجیب الرحمن علیمی صاحب کے ساتھ مجلس سماع میں شرکت کا موقع مل چکا ہے ۔ بڑی بابرکت اور وجد و کیف والی محفل تھی۔
حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ بھی اپنے جملہ مشائخ طریقت کی روش کے مطابق ابتداءاً محفل سماع میں شریک ہوتے رہے۔ جیسا کہ انوار قادری میں ہے:
" ہمارے سرکار قبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ابتداء میں سماع سے ذوق تھا اور اپنے آقایان نعمت بزرگان سلسلہ آبادانیہ کے مسلک پر انہیں آداب و شرائط کے ساتھ محفل سماع(سماع بالمزامیر) میں شرکت فرماتے رہے"۔ (ص: 62)
اسی طرح آپ کے متوسلین و مسترشدین بھی محفل سماع میں شریک ہوتے رہے ، بلکہ ان میں کے بعض تو انعقاد بھی کرتے رہے ۔ لیکن ، بعد کے زمانوں میں آپ نے محفل سماع کی شرکت بالکلیہ بند کر دی اور اپنے مریدین کو بھی شرکت و انعقاد سے منع کر دیا۔ جیسا کہ انوار قادری ہی میں ہے:
" لیکن، انقلاب زمانہ نے جب لوگوں کے ہاتھوں سے احتیاط کی باگ ڈور چھین لی اور متقدمین صوفیا کی نظروں میں سماع و غنا کے جو منافع تھے ، ان کے حاصل ہونے کے بجائے مضرات زیادہ پیدا ہونے لگے تو آپ نے حزم و احتیاط کی بنا پر مجلس سماع کی شرکت یک قلم ترک کر دیا اور اپنے متوسلین و مسترشدین کو بھی محفل سماع کے انعقاد اور اس میں شرکت کی ممانعت فرما دی اور واضح طور پر فرما دیا کہ خواجہ عالیشان حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس بارے میں یہ تھا " نہ ایں کار میکنم نہ انکار میکنم" میرا بھی اس باب میں یہی مسلک ہے"۔ (ص:62)
سلسلہ آبادانیہ فریدیہ اور سلسلہ قادریہ مجیبیہ کی واحد یہ شاخ ہے جہاں لوگوں کے بگڑتے حالات اور مضرات کے پیش نظر سماع بالمزامیر کا انعقاد بطور حزم و احتیاط بند کر دیا گیا ، لیکن کمال تقوی یہ رہا کہ اسے ناجائز و حرام بھی نہیں کہا گیا، کیوں کہ یہ بانی خانقاہ آبادانیہ ، سرکانہی شریف کے جملہ مشائخ کا معمول بہ رہا ہے ۔ بلکہ حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ کے منع فرمانے کے باوجود آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت شاہ عبد الرحیم تیغی رحمہ اللہ ، بریار پور، کانٹی ، مظفرپور اپنی خانقاہ میں سماع بالمزامیر منعقد کرتے رہے اور ان کے وصال کے بعد آج تک وہاں محفل سماع کا انعقاد ہوتا آ رہا ہے۔
ہاں! اب بعض تیغی حضرات حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ کی محفل سماع بالمزامیر میں ابتدائی شرکت کے بھی انکاری ہو نے لگے ہیں اور اسے حرام بتانے لگے ہیں ، بلکہ جو حضرات صوفیائے متقدمین کے اصول پر محفل سماع بالمزامیر کا انعقاد کرتے ہیں ، ان سے بیعت ہونے کو بھی حرام بتانے لگے ہیں ۔ یہ لوگ یا تو خود اپنے مشائخ آبادانیہ اور مشائخ مجیبیہ کے طریق سے واقف نہیں ہیں ، یا واقفیت کے بعد ان کی روش سے ہٹے ہوئے ہیں، یا جان بوجھ کر محرومی کو گلے لگا رہے ہیں ۔ کاش! یہ لوگ خود سلسلہ تیغیہ کی کتابیں " انوار قادری اور انتباہ الطالبین " کا گہرائی سے مطالعہ کرتے تو مشائخ صوفیہ کی اِس روش کے خلاف زبان درازی نہ کرتے ۔ در اصل ایسے حضرات معذور ہوتے ہیں ، کیوں کہ وہ مسائل تصوف کو بھی کتب فقہ سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی فن کا کتاب خواں جب تک کسی صاحب کتاب کی صحبت میں رہ کر اس فن کی باریکیوں سے واقفیت حاصل نہیں کرےگا ، وہ اسی طرح ٹھوکریں کھائےگا۔
در اصل ان سے تسامح ہو گیا ہے ، ان حضرات نے حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ کی ابتدائی مجالس پر غور نہیں کیا ، اِ ن کے پیش نظر صرف اُن کی اواخر عمر کی محفلیں ( سماع بالمزامیر سے منع کرنے کے بعد کی محفلیں ) ر ہیں ۔ جس کے تعلق سے انوار قادری میں ہے:
"مگر، عشق الٰہی و محبت جناب رسالت پناہی جل و علا و ﷺ میں جب کبھی بے چین ہو جاتے تو خود ہی گنگنانے لگتے اور نعتیہ اشعار بے ساختہ آپ کی زبان پر جاری ہو جاتے ۔ بعض اوقات کسی خوش گلو پرہیز گار نعت خواں کو نعت خوانی کا حکم فرماتے ، اس وقت آپ کا عالم دیکھنے کے قابل ہوتا جب کہ محفل نعت سرور کائنات علیہ التحیۃ و الصلوٰۃ کے اندر آپ وجد و کیف میں ڈوبے ہوئے بادہ حب نبوی سے سرشار نظر آتے اور فراق محبوب میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ وجد و کیف کا جب زیادہ غلبہ ہوتا تو اپنی جگہ سے اٹھ کر گھومنے ( رقص کرنے) لگتے اور متوسلین میں جس طرف توجہ فرماتے ، وہ بے خود ہو جاتا"۔ (ص: 63)
اسی میں ہے:
" آپ کی محفل نعت بھی تمام آلات لہو دف، عود، مزامیر وغیرہ سے پاک اور خالی ہوتی تھی اور آج بھی آپ کی خانقاہ عالم پناہ میں موقع بہ موقع آداب و شرائط کے ساتھ نعت خوانی ہوا کرتی ہے"۔ (ص: 64)
آج کل اس کی ترقی یافتہ شکل محفل نعتیہ مشاعرہ ہے، جو عرس براہیمی کے موقع پر منعقد ہوتی ہے۔
بعض تیغی حضرات کے بقول حضور الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری رحمہ اللہ سماع کی جو محفل منعقد کرتے تھے وہ در اصل نعت کی ہی محفل تھی۔ اگر ، معاملہ ایسا ہی تھا تو محفل نعت سے لوگوں کو منع کرنا اور بعد میں خود محفل نعت ہی کو منعقد کرنا، یہ بات قابل قبول نہیں لگتی۔ جب کہ آپ کے جملہ مشائخ خواہ مشائخ آبادانیہ فریدیہ ہوں یا مشائخ قادریہ مجیبیہ ، سب کے یہاں محفل سماع بالمزامیر ہوتی آ رہی ہے اور آج بھی ہو رہی ہے۔ ایک بار پھر سماع کی جو تعریف اور حکم صاحب انتباہ الطالبین نے نقل کی ہے، اس پر نظر ڈال لیں کہ مزامیر ہو یا نہ ہو ، مجمع ہو یا نہ ہو، زہد کے مضامین ہوں یا نہ ہوں، سب کا حکم ایک ہے، نیت اور مقصد صالح ہے تو سب جائز اور نیت گربڑ ہو تو سب ناجائز ، خواہ محفل سماع ہو یا محفل نعت و میلاد۔ اس لیے اتنا تو ضرور ماننا پڑےگا کہ آپ ابتداءً محفل سماع بالمزامیر میں شریک ہوتے رہے اور بعد کے زمانوں میں صرف حزم و احتیاط کے طور پر اپنے متوسلین و مسترشدین کو اس سے منع فرمایا۔ ورنہ، اگر آپ کا منع فرمانا بطور حرام مان لیا جائےکہ حرام ہونے کی وجہ سے آپ نے منع فرمایا، جیسا کہ بعض افراد سے اس طرح کی باتیں بھی مسموع ہوتی رہتی ہیں، حالاں کہ یہ باتیں خود آپ کے مشائخ کے طریق اور حضرت مولانا حافظ شاہ محمد حنیف تیغی کی تشریحات کے خلاف ہیں، تو یہ بڑی سخت اور بڑی محرومی کی بات ہوگی، جب کہ سماع بالمزامیر کے باضابطہ جواز و انعقاد پر ایک نفیس اور علمی گفتگو آپ کے اول خلیفہ حضرت مولانا حافظ شاہ محمد حنیف تیغی رحمہ اللہ کی دونوں کتابوں " انتباہ الطالبین اور انوار قادری " میں موجود ہے ۔
پیش کش:القدس اکیڈمی داراپٹی مظفرپور بہار۔
No comments:
Post a Comment