رو بہ زوال
مفتی آفتاب رشکِ مصباحی |
علامہ اقبال لاہوری کا مشہور مصرعے ہے:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔
لیکن، یہ مصرعہ براے وزن شعری خوب ہے، پریکٹیکل دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔ آئے دن ایسی چیزیں دیکھنے سننے کو ملتی رہتی ہیں کہ نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر فلاں علاقے میں فلاں شخص کو غیر مسلک کا بتا کر اپنے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا، جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا، یہ کر دیا، وہ کر دیا۔ جس پر بسا اوقات ہندوستانی موجودہ فضا میں حددرجہ افسوس ہوتا ہے کہ دشمن ہمارا سر جسم سے غائب کرنے اور زمین ہم پر تنگ کرنے میں دن رات قانونی داؤ پیچ کا استعمال کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ کبھی ہاتھ اوپر نیچے باندھنے تو کبھی دفن و جنازہ کو لے کر آپس ہی میں سرپھٹول کر رہے ہیں۔ لیکن، سچائی یہ نہیں ہے جو موجودہ زمانے کا تشدد ہے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ اس تشدد کی جڑیں بہت قدیم اور گہری ہیں۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں اس طرح کا اولین تشدد داماد رسول خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے ساتھ کیا گیا۔ بعد کے ادوار میں عہد غزنوی کے مشہور ترین شاعر جس نے شاہنامہ کی شکل میں قدیم ایرانی تاریخ مرتب کی، حکیم ابو القاسم حسن بن منصور فردوسی طوسی کی وفات پر اثنا عشری ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے عام قبرستان میں جو سنیوں کے قبضے میں تھا، دفن نہیں ہونے دیا۔ نتیجہ کار فردوسی کے ذاتی باغ میں اسے دفن کیا گیا۔
وہ ملت، وہ امت جسے کلمہ کی بنیاد پر پیغمبر دوعالم ﷺ نے جسد واحد کی طرح بتایا تھا، اس قدر ٹکڑوں میں بٹی کہ جسم واحد کا ہر حصہ دوسرے کو کاٹ کھائے جا رہا ہے۔ یہی وہ انتشار و فساد کلی ہے جس نے ملت کو رو بہ زوال کر رکھا ہے۔ جس سے باہر نکلنے کا واحد راستہ تعالوا الی کلمۃ سواء ہے۔ جب تک مدعیان اسلام اپنی ضد، انا اور خود پسندی کو چھوڑ کر اس کلمہ سواء پر جمع نہیں ہوتے ہیں قعر ذلت سے باہر نہیں آ سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment