جاوید کمال الدین |
حال میں مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکنا تھ شندے نے اپنے عہدے کی پاسداری کو در کنار کرتے ہوئے اپنے اس فرقہ وارانہ عزم کو دو ہرایا ہے کہ مبئی کے قریبی شہر کلیان میں واقع حاجی عبد الرحمن شاہ عرف حاجی ملنگ بابا کی درگاہ کوشکستی دلائیں گے، انہوں نے ایک دبے ہوئے حساس موضوع اٹھاتے ہوئے صدیوں مزار کو ملنگ گڑھ بتایا ہے، جبکہ حاجی عبد الرحمن شاہ کاسالانہ عرس ۲۴ فروری سے شروع ہوگا اور ہر سال شیوسینا اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور اس بار زیادہ اندیشہ ہے، اس درمیاں، ٹرسٹ نے انتظامیہ اور پولیس کو ایک پہاڑ پر واقع درگاہ کی سیکورٹی مزید بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
حال میں مہاراشٹر کے وزیر اعلی کی جانب سے گیان والی مسجد کے سروے کی سائنسی رپورٹ کو عام ایکنا تھ شندے نے اپنے کرنے یا اس کی کا پیاں دونوں فریقین کے حوالے کرنے کے تعلق سے پاسداری کو در کنار فیصلہ کرنے کیلئے ۲۴ جنوری کا وقت طے کیا ہے۔ اس حوالے سےرپورٹ وارانسی عدالت میں پیش کی تھی۔ اے ایس آئی کے مکمل کرنے کے بعد عدالت نے متعدد مرتبہ سروے کی رپورٹ پیش کرنے کیلئے وقت طلب کیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ گیان والی مسجد بنائی گئی ہے یا نہیں جیسا کہ ہندو فریقین کا عملی ہے۔
سروے نے کہا کہ اس معاملے سے متعلق کیس الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا سائنسی ہیں۔ بینچ نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی کی زیادتی نہیں ہونی چاہئے ۔ آپ سروے نے اسے مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر دائر کیا، اس لیے ہم اسے مسترد سی مندر کرتے ہیں۔ اگر کسی اور طریقے سے دائر کیا گیا تو عدالت اس پر غور کرے کا حکم گی۔ اس طرح عدالت نے کچھ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے۔ بنچ نے کہا کہ اس میں دیے گئے متنازعہ حقائق پر مبنی سوالات کے پیش نظر، عدالت کے لیے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب ہوگا۔ درخواست گزار کی طرف سے پیش وکیل نے کہا کہ پی آئی ایل کو الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ اکتوبر میں نے کہا کہ کیس کی خوبیوں پر غور کیے بغیر پی آئی ایں خارج کر دیا کی سماعت سے انکار کر دیا گیا ہے۔
درخواست گزار مہک مہیشوری کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ پی آئی ایل 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کی درستگی کو بھی چیلنج کرتی ہے۔ اس قانون کے مطابق 15 اگست 1947 سے پہلے وجود میں آنے والے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایک سے تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ میشوری کی درخواست میں دلیل دی گئی کہ مختلف متن میں اس جگہ کو شری کرشن کی جائے پیدائش بتایا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ مناسب مسجد نہیں ہے کیونکہ اسلامی فقہ زبردستی قبضے کی زمین پر مسجد کو مقدس نہیں مانتی ، جب کہ ہند و فقہ مندر کا احترام کرتی ہے، چاہے وہ کورٹ کھنڈر ہی کیوں نہ ہو۔
مہیشوری نے کہا مسجد اسلام کالازمی حصہ نہیں ہے۔ سے اس لیے شاہی عید گاہ مسجد کو منہدم کر کےز مین ہندوؤں کے حوالے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ زمین پرمندر کی تعمیر کے لیے کرشنا جنم عید گاہ بھومی جائے پیدائش کے لیے ایک مناسب ٹرسٹ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف مسجد کمیٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حالیہ حکم کو کرشنا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے متھرا میں کرشنا جنم بھومی نے مندر سے متصل شاہی عید گاہ کے عدالت کی نگرانی میں سروے کرنے کی اثناء اجازت دی تھی۔ گزشتہ سال 14 دسمبر کو ہائی کورٹ نے مسجد کمپلیکس کے سروے کی نگرانی کے لیے ایک ایڈوکیٹ کمشنر کی تقرری پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ کیس میں ہندو فریق کا دعوی ہے کہ ایسی نشانیاں ہیں جو ظاہر قرار کرتی ہیں کہ یہ بھی ہندو مندر تھا۔ لیکن کوئی ثبوت پیش کرنے سے فریق عہدے کی کرتے ہوئے اپنے اس فرقہ عدالت کا کہنا ہے کہ سول بیچ سینٹر ڈیویژن فاسٹ ٹریک عدالت کے دارانہ عزم کو دو ہرایا ہے کہ ممبئی کے قریبی شہر کلیان میں واقع حاجی عبد الرحمن شاہ عرف حاجی ملنگ بابا کی درگاہ کو مکتی دلائیں گے، انہوں نے ایک دیے ہوئے حساس موضوع اٹھاتے ہوئے صدیوں مزار کو ملنگ گڑھ بتایا ہے، جبکہ حاجی عبد الرحمن شاہ کا سالانہ عرس 24 فروری سے شروع ہو گا اور ہر سال شیوسینا اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور اس بار زیادہ اندیشہ ہے، اس درمیاں ، ٹرسٹ نے انتظامیہ اور پولیس کو ایک پہاڑ پر واقع درگاہ کی سیکورٹی مزید بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ بھگوا تنظیمیں حاجی ملنگ درگاہ کو مچھندر ناتھ کی سمادھی قرار دیتی ہیں اور یہاں اکثر شر انگیزی جاری رہتی ہے۔
ایکنا تھ شندے نے گزشتہ روز کلیان کی حاجی ملنگ درگاہ پر ایک دیر بینہ تنازعہ کو جنم دیا، جو کہ ان کے گرو آنجہانی آئند دیکھنے کا اٹھایا ہوا تنازع ہے۔ مذکورہ مزار گلیان شہر سے جنوب میں واقع ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں کوئی بھی معمولی تنازع ہو، ان تنظیموں اور اداروں کی کوشش ہے کہ مسجد مندر کے کسی بھی تنازعات عدلیہ کے ذریعہ گھیرے میں لے لیے جائیں۔ خصوصی طور پر اتر پردیش میں پنار کھول دیا گیا ہے، الہ آباد وارانسی متھرا کی مقامی عدالت تو بھی لکھنو بینچ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ بابری مسجد کی اراضی کے حق ملکیت کے معاملے کے بجائے 2019 میں ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا، کس میں یہ تسلیم بھی کیا گیا کہ اجودھیا میں بابری مسجد کی کھدائی میں قدیم مندر کے کوئی آثار نہیں ملے اور نہ کوئی ثبوت پیش کیا گیا لیکن پھر بھی اکثریتی فرقے کی جھولی میں متنازع جگہ ڈال دی گئی اور مسجد کو کوسوں دور پھینک دیا گیا۔ ملک بھر میں خصوصی طور پر اتر پردیش میں جگہ جگہ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں لیکن وارانسی کی گیان والی مسجد اور متھرا شاہی عید گاہ مسجد کے مقدمات موضوع بحث ہیں۔ ابھی وار اسی کی ایک عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) ۱۸ دسمبر کو اے ایس آئی نے گیان والی مسجد کے سروے کی سائنسی دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
جسٹس سنجیو کھنہ اور بیانگر دیہ کی پیچ فیصلے کے آنے کے بعد اس معاملے پر فیصلہ سنایا جاسکے گا۔ یعنی وارانسی کی پرجاوید جمال الدین عدالت نے اے ایس آئی کی جانب سے گیان واپی سروے کی داخل کی گئی سائنسی رپورٹ کو عوام میں عام کرنے یا فریقین کو اس کی کاپیاں فراہم کرنے کے تعلق سے فیصلہ کرنے کیلے ۲۴ جنوری کا وقت طے کیا ہے۔ جو کہ 22 جنوری کو اجودھیا میں رام مندر میں مورتی نصب کیے جانے کے دو روز بعد مقرر کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہندو فریقین کے وکیل بدن موہن یادو کا کہنا ہے کہ ضلعی عدالت کے بیج اے کے وشولیس نے فیصلے کیلئے یہ تاریخ طے کی ہے۔ سماعت کے دوران اے ایس آئی کی ٹیم اور مسلم اور ہندو فریقین عدالت میں موجود تھے۔ اس حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ سیول بج سینئر ڈیویژن تیز رفتار عدالت کے فیصلے کے آنے کے بعد ہم اس معاملے میں فیصلہ سنائیں گے جبکہ فاسٹ ٹریک عدالت ۱۹ جنوری کو اس معاملے میں فیصلہ سنائے گی۔ جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے دیا تھا، جبکہ مسجد کمیٹی کی مخالفت اور سپریم سے رجوع کرنے کے بعد کورٹ نے سروے پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ اب 24 جنوری کو رپورٹ پیش کی جائے گی پردیش میں ہی ایک اور مسجد ۔ مندر تنازع میں متھرا کی شاہی مسجد اور کرشن جنم بھومی تنازعہ سر فرست ہے، سپریم کورٹ نے شاہی عید گاہ مسجد کے آثار قدیمہ کے سروے اور اس جگہ کو شری کی جائے پیدائش قرار دینے کی درخواست کو مستر د کر دیا، عدالت کہا کہ اس معاملہ میں پہلے ہی عدالت میں زیر التوا ہے۔ دریں مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ رجوع کیا ہے، جس میں مسجد کے سروے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اس جگہ کو شری کرشنا کی جنم بھومی ( جائے پیدائش ) قاصر ہے جبکہ عید گا اور مسجد کئی صدی سے یہاں برقرار ہے۔
No comments:
Post a Comment