Saturday, October 22, 2022

واجب کی دو قسمیں ہیں the two types of reasonabl

واجب کی دو قسمیں ہیں :

1- واجب شرعی, جسے واجب اجماعی بھی کہا جاتا ہے: یہ وہ واجب ہےجس کے وجوب میں صحابہ و تابعین اور فقہائے مذاہب میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہ ہو. جیسے: نماز جمعہ وعیدین.   

2- واجب اجتہادی, جسے واجب اختلافی بھی کہا جاتا ہے: یہ وہ واجب ہے جس کے وجوب میں صحابہ و تابعین اور فقہائے مذاہب کا اختلاف پایا جاتا ہو. جیسے: قرأت خلف الامام.

واجب شرعی کا مخالف خاص احوال و کیفیات کے استثنا کے ساتھ فاسق معلن ہوگا. جب کہ واجب اجتہادی کا مخالف عند الشرع فاسق معلن تو دور سرے سے معتوب بھی نہیں ہوگا. 

فقہ اسلامی کا متفقہ قاعدہ ہے: "لا ينكر المختلف فيه و انما ينكر المجمع عليه".( الاشباه و النظائر للسيوطى، ص:158) -

مختلف فیہ پر عمل کرنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے, مواخذہ تو صرف اجماعی مسائل کے خلاف کرنے والے پر ہو سکتا ہے.

علامہ عبد الغنی نابلسی کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے: "متى امكن تخريجها على قول من اقوال فى مذهبنا او مذهب غيرنا فليست بمنكر يجب انكاره و النهى عنه ، و انما المنكر ما وقع الاجماع على حرمته و النهى عنه خصوصا". (فتاوی رضویہ, 9/ 532- الحدیقة الندية شرح الطريقة الندية، 2/204) - 

جب کسی مسئلے کے جواز کی تخریج ہمارے مذہب یا ہمارے غیر کے مذہب کے اقوال میں سے کسی قول پر ممکن ہو تو یہ وہ منکر نہیں ہوگا جس پر نکیر کرنا یا جس سے روکنا واجب ہو, بلکہ منکر تو صرف وہی ہے جس کی حرمت پر اور اس سے نہی پر اجماع واقع ہو.  

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:

إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ الَّذِي قَدِ اخْتُلِفَ فِيهِ وَأَنْتَ تَرَى غَيْرَهُ فَلَا تَنْهَهُ(حلیۃ الاولیا لابی نعیم338/6)

اگر تم کسی کو ایسا عمل کرتے دیکھو جس میں علما کا اختلاف ہو اور تمہاری رائے اس کے برعکس ہو تو تم اس عمل سے اس کو منع نہ کرو. 

یہی وجہ ہے کہ اختلافی مسائل میں علما و مشائخ نے ہمیشہ توسع کی راہ اپنائی ہے اور عاملین و غیر عاملین میں سے کسی کی تفسیق و تضلیل کی, نہ ہی کسی کو برا بھلا کہا.  

چنانچہ اختلافی مسئلہ, مسئلہ سماع بالمزامیر اور سجدہ تعظیمی پر گفتگو کرتے ہوئے مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان بریلوی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں: 

"قوالی مع مزامیر ہمارے نزدیک ضرور حرام و ناجائز و گناہ ہے اور سجدہ تعظیمی بھی ایسا ہی(ہے). ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے, اگرچہ وہ لائق التفات نہیں. مگر, اس نے ان مبتلاؤں کو حکم فسق سے بچا دیا ہے جو ان مخالفین کے قول پر اعتماد کرتے اور جائز سمجھ کر مرتکب ہوتے ہیں". (فتاوی مصطفویہ, ص: 456- مطبوعہ: شبیر برادرز, اردو بازار, لاہور)  

لہذا, جو مسائل وجوب عدم وجوب میں, جواز عدم جواز میں مختلف فیہ ہیں, ان میں سے کسی بھی جہت کو اختیار کرنے والے پر نہ حکم فسق عائد ہوگا, نہ ان کو برا بھلا کہا جائےگا, اور نہ ان پر طعن و تشنیع کی زبان کھولی جائےگی. مثلا: پینٹ شرٹ, ٹائی, مائک پر نماز, چلتی ٹرین پر نماز, سماع بالمزامیر, ابتدائے اقامت پر کھڑا ہونا, داخل مسجد اذان ثانی, قرأت خلف الامام, اقتداے فاجر، سجدہ تعظیمی, تصویر کشی, ویڈیو گرافی, بالوں کا خضاب, مجمع عام میں عورتوں سے مصافحہ, یک مشت سے کم داڑھی, قدم بوسی, طواف قبور, اذان قبر، تعزیہ داری وغیرہ مسائل مختلف فیہ. 

کیوں کہ اصل چیز امت میں توسع اور برداشت ہے، نہ کہ انکار اور فتنہ و فساد۔ امت کو جوڑنا اصل کام ہے، جب کہ کسی بھی نام پر امت کو توڑنا اور ان کو آپس میں ایک دوسرے سے جدا اور متنفر کرنا ملت اسلامیہ میں تفرقہ بازی کرنا ہے۔ 


آفتاب رشک مصباحی 

No comments:

Post a Comment